رمضان المبارک۔۔۔ مایوس دلوں کے لیے اُمید

اپنے رب کی عنایات کو پہچاننا ہو تو اپنی ذات کا عرفان ضروری ہے۔ اپنی ذات کا عرفان یہی ہے کہ اپنے مقام و مرتبہ سے نہ گرا جائے، مایوسی کے اندھیروں میں گم نہ ہوا جائے۔

اللہ رب العزت نے اپنی تقومِ احسن کی حامل تخلیق، حضرتِ انسان کو، اس کے مرتبہ و مقام پر قائم رہنے کے بہت سے گر سکھائے اور اس مقام و مرتبہ سے گِر جانے سے پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کرنے کے انتظامات بھی فرمائے یعنی انسان کا ضمیر، جو اس کا فطری استاد ہے اور انبیائ کو مبعوث فرمایا جو حق و باطل ، سچ اور جھوٹ، نفع و نقصان کی حقیقت سے آگاہ کرتے تھے۔ انسان کے ازلی دشمن شیطان کی شخصیت کو اُجاگر کیا، اس کے ہتھکنڈوں،چالوں سے آگاہ کیا۔ انسان کی کمزوریوں کی وضاحت کی کہ جس کو نشانہ بنا کر اُس کا دشمن اس پہ حاوی ہو سکتا ہے ۔

قصۂ تخلیقِ آدم(ع) میں ایک کردار شیطان یا ابلیس تھا جس کے رویے،ردعمل اور نا فرمانی، آدم(ع) سے حسد، جھوٹی انا، تکبر نے اسے ’’ابلیس‘‘ بنا دیا۔ اب قیامت تک آدم (ع)کی اولاداور ابلیس ایک دوسرے کے دشمن رہیں گے۔

’’ابلیس‘‘ کے لفظی معنی ہیں ’’انتہائی مایوس‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ،جنت میں داخلے سے مایوس، انسان کے مقام و مرتبہ ﴿یعنی اشرف المخلوقات﴾ یا اس سے بھی بڑھ کر کوئی مقام حاصل کر لینے سے مایوس۔

مایوسی کا احساس کسی کو انسان بھی پست ہمت بنا دیتا ہے، پھر انتقامی رویہ اس کا مزاج بن جاتا ہے۔ حسد اور تکبر کا بھی یہی نتیجہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جا بجا ارشاد فرمایا کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے، تم دونوں ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہو ۔ تفہیم القرآن جلد اول میں مولانا مودودی(رح) فرماتے ہیں :

’’یعنی انسان کا دشمن شیطان اور شیطان کا دشمن انسان ۔ شیطان کا دشمن ِ انسان ہونا تو ظاہر ہے کہ وہ اسے فرما نبرداری کے راستے سے ہٹانے اور تباہی کے راستے پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ رہا انسان کا دشمن ِ شیطان ہونا تو فی الواقع انسانیت اس سے دشمنی ہی کی متقاضی ہے۔ مگرخواہشاتِ نفس کے لیے جو ترغیبات وہ پیش کرتا ہے ان سے دھوکا کھا کر آدمی اسے دوست بنا لیتا ہے۔ اس طرح کی دوستی کے یہ معنی نہیں کہ حقیقتاً دشمنی، دوستی میں تبدیل ہو گئی ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک دشمن، دوسرے دشمن سے شکست کھا گیا، اس کے جال میں پھنس گیا۔‘‘

’’ابلیس‘‘ چونکہ خود رحمتِ خدا وندی سے مایوس ہو چکا ہے ، راندۂ درگاہ ہو چکا ہے، اب انسان سے دشمنی اس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اسے بھی اللہ کی رحمت سے مایوس کردے ۔ کسی بھی انسان کا خیر سے مایوس ہونا اُس کا خود کوزندہ در گور کر دینا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت زمین و آسمان اور ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے تو کافر ہی مایوس ہوتے ہیں . انسان اگرچہ وہ مسلم و مومن نہ ہو، جب تک مایوسی سے دور رہتا ہے زندگی کا لطف اٹھاتا ہے ۔اگر وہ مومن و مسلم ہو تو اس کے لیے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اچھائی کی امید رہتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑے مومن ہر قسم کے نشیب و فراز میں معتدل و متوازن شخصیت کا حامل بن کے رہتا ہے۔ نہ مایوس ہوتا ہے نہ متکبر بنتا ہے۔ آج ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں وہ دو انتہائوں کی طرف رواں دواں ہے اور اس کی رفتار میں تیزی آرہی ہے۔

مایوس کردار ﴿شیطان ، ابلیس﴾ اپنی مایوسی کا انتقام ہر طبقے کے مسلمان سے، انفرادی و اجتماعی طور پر لے رہا ہے. خیر سے مایوسی، اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی ، مثبت تبدیلی سے مایوسی، نیکی پر کار بند رہنے سے مایوسی، زندگی کی اعلیٰ اقدار کے دنیا میں بار پانے سے مایوسی، اپنی کوششوںکی کامیابی سے مایوسی۔

ہر طرف مایوسیوں کا دھواں پھیل رہاہے۔ معاشرتی رویے، معاشی تگ و دو، زندگی کی گاڑی کھینچنے کی سکت، سانس کی آمد و شد بھی مایوسی کا پیغام دیتی نظر آتی ہے۔

جب مومن پریشان ہوتا ہے تو شیطان خوش ہوتا ہے ۔ مومن مایوس ہوتا ہے تو وہ خوش و مطمئن ہوتا ہے . مایوسی جس نہج کی بھی ہو بہرحال ناشکری ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے حاکمِ مطلق اور قادر مطلق ہونے کی نفی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ عالیہ سے انکار چاہے قول سے ہو یا عمل سے یا رویے سے، یہ کفر ہے۔ شیطان کی انسان سے یہی تو جنگ ہے کہ وہ مومن کو اللہ تعالیٰ سے دورکرنا چاہتا ہے کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے

ایک ڈوبنا نہیں چاہتا اور دوسرا پر عزم ہے کہ ڈبو کر ہی چین آئے گا . اس کشمکش سے کسی کو مفر نہیں کہ یہی ’’امتحان ‘‘ ہے۔

آج ہم جس ’’ہتھیار‘‘ سے ابلیس کے ہاتھوں گھائل ہو رہے ہیں، شیطان کے جس طریقۂ واردات سے ہم خود کو کمزور و ناتواں محسوس کرتے ہیں اس سے آگاہی لازمی ہے اور وہ ہے ’’مایوسی۔‘‘

ایک انسان اگر مایوسی کا شکار ہو جائے تو اس کے ساتھ اگرچہ بہت سی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔ مگر جب ایک پوری قوم مایوسی کا لبادہ اوڑھ لے تو شیطان کامیابی سے پھولا نہیں سماتا، رقصِ ابلیس کے اس شعلے میں قوم کے نام نہاد لیڈر بھی شامل ہو جاتے ہیں۔

قوم کو مایوس کرنے میں ابلیس اور اس کے کارندے پیش پیش ہیں، جن میں میڈیا سرفہرست ہے۔

قوم کو بیدار کرنے، مایوسی کے اندھیروں سے روشنی کی طرف لانے کے لیے کیا کرنا چاہیے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلی بات اپنے دشمن کو دشمن ہی جاننا اور اس کی چالوں کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرنا ہے۔ہم اپنے حریف کو نا خوش کرنے کے لیے وہ کام کرتے ہیں جس سے اُس کو تکلیف ہو، مایوسی ہو، ہماری ایمانی کیفیت کی مضبوطی سے شیطان کو سخت تکلیف پہنچتی ہے۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بہت اچھی امیدیں رکھتے ہیں تو وہ نا خوش ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ جتنا اچھا گمان رکھیں گے شیطان کو اتنی ہی تکلیف ہو گی ۔ ’’مومن نیکی کر کے دل میں تسکین محسوس کرتا ہے تو شیطان کو اس سے تنگی محسوس ہوتی ہے۔‘‘

اس طرح ہر عبادت ، خلوص ِ نیت سے کی گئی ہر نیکی چاہے وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ سے اجر کی توقع میں کی جاتی ہے توشیطان کو رنج پہنچتا ہے۔ وہ اپنے رنج کو دور کرنے کے لیے مومن کے دل میں وسوسے پیدا کرتا ہے۔ ان وسوسوں کی وجہ سے جب انسان اپنے اعمالِ صالحہ کے بارے میں متردد ہوتا ہے تو شیطان کا دل خوش ہوتا ہے ۔

آئیے! اس رمضان المبارک میں اپنے ازلی دشمن کا دل جلانے کے طریقے تلاش کریں۔ ہم اپنا دل خوشی اور اطمینان سے بھر لیں، تسکینِ قلب حاصل کریں اور شیطان کو خوش ہونے کا موقع نہ دیں ۔ آج جس مایوسی بھرے معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں، اس میں امیدوں کے دئیے جلائیں تاکہ ان کی روشنی میں ہماری آئندہ نسلیں صراطِ مستقیم پر گامزن رہ سکیں۔

اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک میں روزے فرض کر کے ایک تربیتی مشق بلکہ لازمی مشق کرنے کا حکم دیا اور اس کی غرض و غایت یہ بتائی: لَعْلَّکُمْ تَتَقُوْنَ، تاکہ تم پرہیز گار بن سکو۔

تقویٰ کے لفظ کا مادہ وق ی ہے۔ اس کے معنی ہیں :

کسی چیز کو سنبھال کر رکھنا، اس کی حفاظت کرنا، خطرے سے بچانا۔ گویا اتقیٰ کا مطلب ہے اپنے آپ کا اور بھی زیادہ خیال رکھنا ، زیادہ حفاظت کرنا، مثلاً﴿ اتقی المطر﴾ سے مراد ہے بارش سے بچنے کی تدبیر کرنا ۔

عربی کا لفظ ’’تقویٰ‘‘ عبرانی زبان کے لفظِ تقواہ﴿Tikvah﴾ سے کافی مماثلت رکھتاہے۔ جس کے معنی ’’امید‘‘ کے ہیں۔

آئیے ہم عہد کریں کہ اس سال رمضان المبارک میں ہمیں اپنے آپ کو مایوسی کے خطرے سے بچانا ہے،شیطان کی مایوس کرنے والی چالو ں، وسوسوں سے محفوظ رکھنا ہے اور امید کا دیا روشن رکھنا ہے تاکہ ہمارا دشمن مایوس، غم زدہ اور شکست خوردہ ہوجائے۔

پاکستان اور امت مسلمہ دونوں جس قسم کے حالات سے نبرد آزما ہیں اس پر ہر حساس دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ زندگی کا ہر پہلو اندھیروں میں ڈوبا ہوا محسوس ہوتاہے۔ ہمیں ہر طرح سے اپنا بچائو کرنا ہے، وہ دنیا کا عذاب ہو یا آخرت کا ، شیطان کی چالیں ہو ںیا اپنے نفس کی کمزوریاں۔

ہر فرد اگر ملت کے مقدر کا ستارہ ہے تو پھر ہر ستارہ اپنی روشنی کو بجھنے کیوں دے! جب ہر ستارہ روشن ہوجائے گا تو کائنات کے افق پہ روشنی ہی روشنی ہو جائے گی۔ ہم اپنے آپ سے عہد کریں کہ اپنی ہر معمولی سی نیکی کو بھی اپنے لیے وجۂ راحت جاں بنانا ہے ۔ مومن کو نیکی اگر خوش کرتی ہے تو وہ مومن ہے ۔ برائی کر کے اس کا دل اگر اداس اور پریشان ہوتا ہے تو وہ مومن ہے ﴿زاد راہ ﴾۔ہم بڑے بڑے کام نہیں کر سکتے تو اپنے دشمن شیطان کو ذرا سا غم تو پہنچا ہی سکتے ہیں ۔ رمضان المبارک کا استقبال، چاند نظر آنے کی خوشی اس مہم کا پہلا مرحلہ ہے۔ذرا ہمیں اپنی نیکی کا ادراک ہو گا، خوشی کا شعور ہو گا تو دل میں سرور بھی آئے گا۔

جب مومنوں کے دل ایمان کی اس کیفیت کے ساتھ رمضان المبارک کے چاند کو دیکھتے ہیں، اور اس کا انتظار کرتے ہیں تو وہ دل میں خوشی محسوس کرتے ہیں، جیسے سمندر میں جوار بھاٹا آتاہے۔ مومنوں کے ایمانی سمندر میں تحریک پیدا ہوتی ہے اور رمضان المبارک کی ساعتیں اس جوار بھاٹا میں تندی اور تیزی لانے کا موجب ہوتی ہیں ۔ جوں جوں رحمتوں کے حصول، مغفرت اور آتشِ جہنم سے رہائی کا مرحلہ آتا ہے ایمان کے متلاطم سمندر میں جوش و جذبہ کی لہریں اٹھنے لگتی ہیں۔

نیکی کر لینے اور اس کے مقبول ہونے کا یقین کیا کوئی کم خوشی ہے ؟ چاند کا انتظار ہی ہماری خوشی کا آئینہ دار ہے ۔ ہمارا مشن شیطان کو نا خوش کرنا ہے، اس لیے اپنی ہر نیکی پہ خوش ہونے کا شعوری ادراک پیدا کیجئے ، اپنی نیکیوں کو خود باور کیجیے، چھوٹی چھوٹی نیکیاں مل کر نیکیوں کے بڑے بڑے انبار بن جائیں گے ۔ چھوٹی چھوٹی خوشیاں شیطان کے سر پہ خاک ڈالیں گی۔

سحری کے وقت کھانے کا مینیو ترتیب دینا، پھر اس کا انتظام کرنا . تراویح کا اہتمام کرنا ہر مسلمان کی اخلاقی، قومی اور انفرادی ذمہ داری ہے. ہر قدم ، ہر رکعت ، ہر ذکر کو دل سے محسوس کیجیے کہ یہ آپ کی خوشی و راحت کا سامان بن رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ محبت اور پیار سے اپنے بندوں کے افعال و اذکار کو دیکھ اور سن رہا ہے اور جواب بھی دے رہا ہے۔ الارم لگا کر سونے کے باوجود بار بار اُٹھ کر گھڑی دیکھنا کہ کہیں سحری کا وقت نہ نکل جائے . شاید الارم نہ بجے، یہ عمل رب کو کس قدر پیارا لگ رہا ہوگا کہ میری خاطر اٹھنے کے لئے میری بندی/ بندہ کتنی فکر مند ہے!اپنے خالق حقیقی کی محبت میں اپنے خالق کی رضا و خوشنودی کے اعمال بطیب خاطر بجا لانا اس سے محبت کی بیّن دلیل ہے۔ کچی نیند میں اٹھ کر سب روزہ داروں کے کھانے کا انتظام کرنا، سوتوں کو جگانا، ہر چیز مہیا کرنا، کھانے میں کسی چیز کی کمی کا احساس ہونے پر اپنی بھوک، اپنی ضرورت کو تج دینا ،کیا وہ خالق و رزاق اس عمل پہ شاباشی نہیں دے گا ؟ آخر یہ ایثار اس کی خوشنودی کی خاطر ہی تو کیا ہے نا!

نیند کے غلبے کے باوجود ، نماز کا انتظار کرنا ۔ تلاوت قرآنِ پاک، بچوں کے سکول کی تیاری، گھر کے کام کاج ، یہ سب کس کے لیے؟ اپنے رب کو خوش کرنے اور تسکین قلب و جاں کے لیے ہے . پھر ہمارا مشن شیطان کو نا خوش کرنا ہے ۔ دل کی ایمانی کیفیت پر اپنی خوشی کے ادراک کا عمل بھی ایک مسرور کرنے والا عمل ہے ۔’’ میں نے یہ کام اپنے پیارے رب کے لیے کیا ہے‘‘ اسی یقین، اسی ادغان کے بل بوتے اپنے دشمن کو مایوس کیا جائے ۔ سارا دن زیردستوں کے ساتھ حسن سلوک، نرمی، زبان کی حفاظت، درسِ قرآن اور دورِ قرآن کے لیے جانا اس راستے کا ہر قدم . کیا یہ سب اللہ تعالیٰ کی نظر میں نہیں؟ ہر حرف، ہر سوچ، ہر جذبہ پیارے رب کے علم میں ہے اور وہ ان مبارک گھڑیوں میں اجر میں اضافہ فرما دیتا ہے۔ کم دام دے کر دوگنی سے بھی زیادہ بالکل خالص چیز خریدنے پر جو خوشی ہوتی ہے، کیا یہ خوشی اس سے بھی زیادہ نہیں؟

دن بھر اپنے افکار کی، اعمال کی حفاظت کرنا کہ شیطان کہیں، نقب نہ لگا لے۔ غلطی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت ِ واسعہ سے معافی کی امید رکھنا ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ِ واسعہ کو اپنے چاروں طرف چھایا ہوا محسوس کرنا ۔ ایک ایسی چھتری کی طرح جس سے ہر موسم کے بُرے اثرات سے پناہ مل جاتی ہے۔ اُمید و ایمان کی یہی چھتری ہمیں شیطان کی طرف سے پھیلائی ہوئی بد دلی اورمایوسی سے بچائے گی ۔

روزے کے ساتھ افطاری کا انتظام کرنا بھی کوئی معمولی کام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک نہایت گراں بار عمل ہے۔ یقین کیجیے کہ آپ کے ہاتھ کی ہر حرکت، آپ کے وقت کا ہر لمحہ اللہ کی نظر میں ہے اور اجر دینے کے لئے اس کے پاس ایسے خزانے ہیں جن میں کسی کمی کا اندیشہ نہیں۔

آپ کا ہر عمل صدقہ ہے ، ہر وہ پیسہ جو اللہ کی راہ میں دیا ، ہر وہ کلمہ جو زبان سے دوسروں کی خیر خواہی کے لیے نکلا، ہر وہ قدم جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خدمت کے لیے اٹھا، ہر وہ نگاہ جوعبرت و بصیرت لیے ہوئے تھی، ہر وہ خیر خواہی جو کسی بھی جاندار سے کسی بھی شکل میں کی گئی. آپ کے لیے رحمت کا باعث بنے گی۔ اللہ کی رحمت کی برستی برکھا کے احساس کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بارش سے مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہے۔ اللہ کی رحمت کی بارش سے ایمان کی بنجر اور مُردہ زمین زرخیز اوربار آور ہو جاتی ہے۔ شیطان مردہ دلوں میں بستا ہے۔ زندہ دل ایمان کی تازگی رکھتے ہیں۔ تازگی اور بشاشتِ ایمان رب کائنات کا قرب عطا کرتی ہے اوررحمان کی محبت کا سرور، شیطان کا منہ چڑاتا ہے۔ وہ اپنے سر میں خاک ڈالتا ہے، اپنے حربوں میں ناکام ہونے پرجل بھن جاتا ہے ۔

رمضان المبارک کے ہرعشرے کو احساسِ زندہ کے ساتھ گزار دیں گے تو عروجِ آدم خاکی کے طنطنے سے سے ہر طرف لرزہ طاری ہونے لگے گا ۔ مغفرت کا عشرہ ہماری مایوسی کو مزید ختم کرنے کا باعث ہو گا ۔ وہ رب رحیم ہے ، ہمارے اعمال کی کمی کو تاہی کو اپنے کر م و فضل سے ڈھانپ دے گا اور پھر آگ ﴿ جو شیطان اور اس کے پیچھے چلنے والوں کا ٹھکانہ ہے ﴾ سے ہمیں نجات مل جائے گی۔

رب کائنات کے حضور انفرادی نیکیوں کے قبول ہو جانے کی استدعا پیش کرتے ہوئے قوم کی اجتماعی نیکیوں کو بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اپنی نیکیوں کا حوالہ دے کر رب سے مناجات کرنا، مشکل گھڑی دور کرنے کی التجا کرنا، ہمارے نبیa نے ہمیں سکھایا ہے۔ اپنے انفرادی گناہوں کی معافی مانگنے کے ساتھ قوم کے گناہوں کی معافی بھی مانگنا ہم سب پر واجب ہے کہ ہم بھی اس قوم کا حصہ ہیں ۔ کوئی نہیں جانتا نیکیوں کے پلڑے میں کسی ایک نیکی سے وزن بڑھ جائے۔ ہم کیوں نہ اپنے حصے کی نیکیاں قوم کی فلاح کے پلڑے میں ڈالتے جائیں ۔ ہم ان لوگوں میں شامل ہوں جو انسانیت کے لیے رحمت کا باعث بنتے ہیں اور ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کسی بھی قوم پر عذاب کو ٹالتا رہتاہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس رمضان المبارک میں اپنی پہچان کروا دے ۔

مَنْ عَرَفَ نَفْسِہُ فَقَدْعَرَفَ رَبَّہ اپنے رب کی عنایات کو پہچاننا ہو تو اپنی ذات کا عرفان ضروری ہے اور اپنی ذات کا عرفان یہی ہے کہ اپنے مقام و مرتبہ سے نہ گرا جائے، مایوسی کے اندھیروں میں گم نہ ہوا جائے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے فرمایا:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُا الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاط اِنَّہ، ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo ﴿الزمر۹۳:۳۵﴾

’’اے نبی(ص) کہہ دو ، اے میرے وہ بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائو۔ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے وہ غفور الرّحیم ہے۔

بے شک ہمارا رب نیکی کی قدر کرنے والا، اس پر ہماری توقعات سے زیادہ اجر عطا فرمانے والا ہے۔ وہ ’’شب قدر‘‘ جیسی رات عطا کر کے اپنے بندوں کو اپنی عنایات اور انعامات سے مالا مال کرنے والا ہے ۔ وہ نفل کو فرض اور فرض کا ستر گنا ثواب عطا کر کے ہمیشہ حوصلے بڑھانے والی ذات ہے ۔ دلوں کو زندہ رکھنے کے لیے قرآن پاک جیسی نعمت عطا کرنے والی مہربان ذات ہے۔بلکہ یہی تو وہ چیز ہے کہ جس کی خوشی دیگر سب خوشیوں پہ حاوی ہے۔ ہر روز اس کلام کو پڑھنا، سننا، سمجھنا، یاد کرنا، عمل کرنا اور دوسروں تک پہنچاناایک مرد مومن کی ذمہ داری ہے۔ خوشیوں کا ایسا لازوال خزانہ مومنوں کے پاس ہے جس کی کوئی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ہے ۔ جس انسان اور جس قوم کے پاس اتنی عظیم دولت ہو وہ کیسے دوسروں سے زیر ہو سکتی ہے ۔ ضرورت اس بات کا احساس و ادراک کرنے کی ہے ۔

دلِ مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دو بارہ

کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کُہن کا چارہ

تبصرہ کریں